افضل کون ؟
دوسرا کتا
۔""""""""
حاجی صاحب نے آخری عمر میں فیکٹری لگا لی اور چوبیس گھنٹے فیکڑی میں رہنے لگے، وہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے دفتر میں کام کرتے تھے اور جب تھک جاتے تھے تو فیکٹری کے گیسٹ ہاؤس میں سو جاتے تھے، حاجی صاحب کے مزاج کی یہ تبدیلی سب کے لئے حیران کن تھی ۔
وہ تیس برس تک دنیا داری کاروبار اور روپے پیسے سے الگ تھلگ رہے تھے، انہوں نے یہ عرصہ عبادت اور ریاضت میں گزارا تھا، اللہ تعالی نے انہیں اس ریاضت کا بڑا خوبصورت صلہ دیا تھا وہ اندر سے روشن ہو گئے تھے، وہ صبح آٹھ بجے اپنی بیٹھک کھولتے تھے اور رات گئے تک ان کے گرد لوگوں کا مجمع رہتا تھا، لوگ اپنی اپنی حاجت لے کر ان کے پاس آتے تھے، وہ ان کے لئے دعا کا ہاتھ بلند کر دیتے تھے اور اللہ تعالی سائل کے مسائل حل فرما دیتا تھا۔ اللہ تعالی نے ان کی دعاؤں کو قبولیت سے سرفراز کر رکھا تھا، لیکن پھر اچانک حاجی صاحب کی زندگی نے پلٹا کھایا۔
وہ ایک دن اپنی گدی سے اٹھے، بیٹھک بند کی، اپنے بیٹوں سے سرمایہ لیا اور گارمنٹس کی ایک درمیانے درجے کی فیکٹری لگا لی، انہوں نے اس فیکٹری میں پانچ سو خواتین رکھیں، خود اپنے ہاتھوں سے یورپی خواتین کے لئے کپڑوں کے نئے ڈیزائن بنائے، یہ ڈیزائن یورپ بھجوائے، باہر سے آرڈر آئے اور حاجی صاحب نے مال بنوانا شروع کر دیا۔ یوں ان کی فیکٹری چل نکلی اور حاجی صاحب دونوں ہاتھوں سے ڈالر سمیٹنے لگے، دنیا میں اس وقت گارمنٹس کی کم و بیش دو، تین کروڑ فیکٹریاں ہوں گی اور ان فیکٹریوں کے اتنے ہی مالکان ہوں گے لیکن ان دو تین کروڑ مالکان میں حاجی صاحب جیسا کوئی دوسرا کردار نہیں ہو گا۔ پوری دنیا میں لوگ بڑھاپے تک کاروبار کرتے ہیں اور بعد ازاں روپے پیسے اور اکاؤنٹس سے تائب ہو کر اللہ اللہ شروع کر دیتے ہیں، لیکن حاجی صاحب ان سے بالکل الٹ ہیں۔ انہوں نے پینتیس سال کی عمر میں کاروبار چھوڑا اللہ سے لو لگائی، لیکن جب وہ اللہ کے قریب ہو گئے تو انہوں نے اچانک اپنی آباد خانقاہ چھوڑی اور مکروہات کے گڑھے میں چھلانگ لگا دی۔ وہ دنیا کے واحد بزنس مین ہیں جو فیکٹری سے درگاہ تک گئے تھے اور پھر درگاہ سے واپس فیکٹری پر آ گئے۔ حاجی صاحب کی کہانی ایک کتے سے شروع ہوئی تھی اور کتے پر ہی ختم ہوئی۔
حاجی صاحب کی گارمنٹس فیکٹری تھی، حاجی صاحب صبح صبح فیکٹری چلے جاتے اور رات بھیگنے تک کام کرتے تھے، ایک دن وہ فیکٹری پہنچے تو انہوں نے دیکھا ایک درمیانے قد کاٹھ کا کتا گھسٹ گھسٹ کر ان کے گودام میں داخل ہو رہا ہے، حاجی صاحب نے غور کیا تو پتہ چلا کتا شدید زخمی ہے، شاید وہ کسی گاڑی کے نیچے آ گیا تھا، جس کے باعث اس کی تین ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں اور وہ صرف ایک ٹانگ کے ذریعے اپنے جسم کو گھسیٹ کر ان کے گودام تک پہنچا تھا۔ حاجی صاحب کو کتے پر بڑا رحم آیا، انہوں نے سوچا وہ کتے کو جانوروں کے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں، اس کا علاج کراتے ہیں اور جب کتا ٹھیک ہو جائے گا تو وہ اسے گلی میں چھوڑ دیں گے۔ حاجی صاحب نے ڈاکٹر سے رابطے کے لئے فون اٹھایا لیکن نمبر ملانے سے قبل ان کے دل میں ایک انوکھا خیال آیا اور حاجی صاحب نے فون واپس رکھ دیا۔ حاجی صاحب نے سوچا کتا شدید زخمی ہے، اس کی تین ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں، اس کا جبڑا زخمی ہے اور پیٹ پر بھی چوٹ کا نشان ہے چنانچہ کتا روزی روٹی کا بندوبست نہیں کر سکتا۔ حاجی صاحب نے سوچا، اب دیکھنا یہ ہے قدرت اس کتے کی خوراک کا بندوبست کیسے کرتی ہے، حاجی صاحب نے مشاہدے کا فیصلہ کیا اور چپ چاپ بیٹھ گئے ۔
وہ کتا سارا دن گودام میں بیہوش پڑا رہا، شام کو جب اندھیرا پھیلنے لگا تو حاجی صاحب نے دیکھا ان کی فیکٹری کے گیٹ کے نیچے سے ایک دوسرا کتا اندر داخل ہوا، کتے کے منہ میں ایک لمبی سی بوٹی تھی۔ کتا چھپتا چھپاتا گودام تک پہنچا، زخمی کتے کے قریب آیا، اس نے پاؤں سے زخمی کتے کو جگایا اور بوٹی اس کے منہ میں دے دی۔ زخمی کتے کا جبڑا حرکت نہیں کر پا رہا تھا چنانچہ اس نے بوٹی واپس اگل دی۔ صحت مند کتے نے بوٹی اٹھا کر اپنے منہ میں ڈالی، بوٹی چبائی، جب وہ اچھی طرح نرم ہو گئی تو اس نے بوٹی کا لقمہ سا بنا کر زخمی کتے کے منہ میں دے دیا۔ زخمی کتا بوٹی نگل گیا۔ اس کے بعد وہ کتا گودام سے باہر آیا، اس نے پانی کے حوض میں اپنی دم گیلی کی، واپس گیا اور دم زخمی کتے کے منہ میں دے دی۔ زخمی کتے نے صحت مند کتے کی دم چوس لی۔ صحت مند کتا اس کاروائی کے بعد اطمینان سی واپس چلا گیا۔
حاجی صاحب مسکرا پڑے، اس کے بعد یہ کھیل روزانہ ہونے لگا، روز کتا آتا اور زخمی کتے کو بوٹی کھلاتا، پانی پلاتا اور چلا جاتا، حاجی صاحب کئی دنوں تک یہ کھیل دیکھتے رہے ۔
ایک دن حاجی صاحب نے اپنے آپ سے پوچھا “وہ قدرت جو اس زخمی کتے کو رزق فراہم کر رہی ہے کیا وہ مجھے دو وقت کی روٹی نہیں دے گی؟” سوال بہت دلچسپ تھا، حاجی صاحب رات تک اس سوال کا جواب تلاش کرتے رہے یہاں تک کہ وہ توکل کی حقیقت بھانپ گئے، انہوں نے فیکٹری اپنے بھائی کے حوالے کی اور تارک الدنیا ہو گئے۔
وہ مہینے میں تیس دن روزے رکھتے اور صبح صادق سے اگلی صبح کاذب تک رکوع و سجود کرتے، وہ برسوں اللہ کے دربار میں کھڑے رہے، اس عرصے میں اللہ انہیں رزق بھی دیتا رہا اور ان کی دعاؤں کو قبولیت بھی، یہاں تک کہ وہ صوفی بابا کے نام سے مشہور ہو گئے اور لوگ ان کے پاؤں کی خاک کا تعویز بنا کر گلے میں ڈالنے لگے، لیکن پھر ایک دوسرا واقعہ پیش آیا اور صوفی بابا دوبارہ حاجی صاحب ہو گئے۔
یہ سردیوں کی ایک نیم گرم دوپہر تھی، صوفی بابا کی بیٹھک میں درجنوں عقیدت مند بیٹھے تھے، صوفی بابا ان کے ساتھ روحانیت کے رموز پر بات چیت کر رہے تھے، باتوں ہی باتوں میں صوفی بابا نے کتے کا قصہ چھیڑ دیا اور اس قصے کے آخر میں حاضرین کو بتایا۔
“رزق ہمیشہ انسان کا پیچھا کرتا ہے لیکن ہم بیوقوف انسانوں نے رزق کا پیچھا شروع کر دیا ہے، اگر انسان کی توکل زندہ ہو تو رزق انسان تک ضرور پہنچتا ہے، بالکل اس کتے کی طرح جو زخمی ہوا تو دوسرا کتا اس کے حصے کا رزق لے کر اس کے پاس آ گیا۔ میں نے اس زخمی کتے سے توکل سیکھی۔ میں نے دنیاداری ترک کی اور اللہ کی راہ میں نکل آیا، آج اس راہ کا انعام ہے میں آپ کے درمیان بیٹھا ہوں۔ ان تیس برسوں میں کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب اللہ تعالی نے کسی نہ کسی وسیلے سے مجھے رزق نہ دیا ہو یا میں کسی رات بھوکا سویا ہوں۔ میں ہمیشہ اس زخمی کتے کو تھینک یو کہتا رہتا ہوں جس نے مجھے توکل کا سبق سکھایا تھا-“
صوفی بابا کی محفل میں ایک نوجوان پروفیسر بھی بیٹھا تھا، پروفیسر بولا “صوفی بابا ان دونوں کتوں میں افضل زخمی کتا نہیں تھا بلکہ وہ کتا تھا جو روز شام کو زخمی کتے کو بوٹی چبا کر کھلاتا تھا اور اپنی گیلی دم سے اس کی پیاس بجھاتا تھا۔ کاش آپ نے زخمی کتے کے توکل کی بجائے صحت مند کتے کی خدمت، قربانی اور ایثار پر توجہ دی ہوتی تو آج آپ کی فیکٹری پانچ، چھ سو لوگوں کا چولہا جلا رہی ہوتی۔“
صوفی بابا کو پسینہ آ گیا، نوجوان پروفیسر بولا “صوفی بابا! اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہوتا ہے، وہ صحت مند کتا اوپر والا ہاتھ تھا جبکہ زخمی کتا نیچے والا۔ افسوس آپ نے نیچے والا ہاتھ تو دیکھ لیا لیکن آپ کو اوپر والا ہاتھ نظر نہ آیا، میرا خیال ہے آپ کا یہ سارا تصوف اور سارا توکل خود غرضی پر مبنی ہے کیونکہ ایک سخی بزنس مین دس ہزار نکمے اور بے ہنر درویشوں سے بہتر ہوتا ہے۔” نوجوان اٹھا’ اس نے سلام کیا اور بیٹھک سے نکل گیا.
حاجی صاحب نے دو نفل پڑھے، بیٹھک کو تالا لگایا اور فیکٹری کھول لی، اب وہ عبادت بھی کرتے ہیں اور کاروبار بھی۔ اور ان کی فیکٹری کی بدولت سینکڑوں گھروں کے چولھے روشن ہیں ۔