آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان ...قسط نمبر 3
میں نے اس قصے سے پہلے دریائے تلوادی ،اس کے نواحی پہاڑوں اور وادی کا ذکر کیا ہے۔یہ علاقہ نارتھ فارسٹ ڈویژن کے نہایت گنجان، خطرناک اور دشوار گزار علاقوں میں سے ہے۔میں نے جس مقام پر بیرا کو پکڑا تھا وہاں سے یہ دریا اور اسی نام کی وادی تقریباً گیارہ مل دور ہے۔درندوں ا ور دوسرے چھوٹے بڑے جانوروں کے علاوہ یہاں حشرات الارض خصوصاً سرخ اور پیلی مکڑیوں کی کثرت ہے۔اس لیے مقامی باشندے تلوادی کے علاقے کو ’’مکڑیوں کی بستی‘‘ بھی کہتے ہیں۔ان مکڑیوں کی لمبائی نو دس انچ تک ہوتی ہے اور ان کے بیضوی جالے بیس بیس فٹ چوڑے دیکھے گئے ہیں۔نہایت زہریلی ،تندخواور نڈر مکڑیاں ہیں۔آدمی کو کاٹ لیں اور اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو چند گھنٹوں کے اندر اندر موت واقع ہو جاتی ہے۔یہ مکڑیاں آگ اور روشنی سے بہت ڈرتی ہیں۔
لوگ اس علاقے میں جانے کی جرأت ہی نہیں کرتے۔ اگر کسی وجہ سے جانا پڑے تو ہاتھوں میں لمبی لمبی مشعلیں اٹھا لیتے ہیں۔کیونکہ مکڑیاں جابجا ملتی ہیں۔مقامی باشندوں کے خوف کھانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مکڑیاں آدم خور ہیں۔بعض اوقات اکیلے آدمی کو جنگل میں گھیر کر کاٹ لیتی ہیں۔جب وہ مر جاتا ہے یا درد کی شدت سے بے ہوش ہو جاتا ہے تو اسے نوچ نوچ کر ہڑپ کر جاتی ہیں۔ایک مرتبہ میں نے اس علاقے سے گزرتے ہوئے ایسا ہی لرزہ خیز منظر دیکھا تھا۔ کسی آدمی کی بڑی ہوئی لاش پر بے شمار سرخ اور پیلی مکڑیاں ایک دوسرے کی جانی دشمن ہونے کے باوجود شکار کا گوشت مل جل کر کھاتی ہیں۔اگر ایسا موقع نہ ہو اور کوئی سرخ مکڑی پیلی مکڑی کے جالے میں چلی جائے تو جالے کی مالکہ فوراً اس کا حملہ کر دیتی ہے۔اپنا شکار مار ڈالنے کے بعد یہ مکڑیاں پہلے اس کا خون چوستی ہیں اور گوشت بعد میں کھاتی ہیں۔
اس وادی کے ایک کنارے پر گوٹھی رین نام کی ایک خوبصورت پہاڑی ہے۔دریائے چنار اس پہاڑی کے نیچے سے گزرتا ہے۔یہاں ایک بستی آباد ہے جسے کمپی کاری کہتے ہیں۔کمپی کاری کے نواحی جنگل میں ہاتھیوں کی حکومت ہے۔مجھے یاد ہے چند سال پیشتر یہاں ایک مست ہاتھی نے خاصا ادھم مچایا تھا۔ اس نے نہ صرف پوری بستی تہس نہس کر دی بلکہ سات آدمی بھی مار ڈالے تھے۔ میں نے اس ہاتھی کو کیسے مارا، اس کی داستان پھر کبھی سناؤں گا۔ اس وقت تو وادی کے خونخوار ریچھوں اور مندا چی پالم کے آدم خور شیر کا ذکر کرتا ہوں جو میری شکاری زندگی کے ناقابل فراموش تجربات میں سرفہرست ہے۔
تلوادی دراصل بانس کے درختوں کا گھنا جنگل ہے۔بعض مقامات پر بات سات آٹھ آٹھ فٹ اونچی گھاس بھی اگی ہوئی ہے جس کے ریشے ریزربلیڈ کی مانند تیز ہیں۔معمولی کپڑوں کا ذکر ہی کیا، چمڑے کا لباس بھی ان ریشوں سے رگڑ کھا کر چھلنی ہو جائے۔البتہ چکنے بال اور لباس پر یہ گھاس اثر نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ شیر اور چیتے بلکہ جنگلی بھینسے بھی اس گھاس کے اندر اطمینان سے گھس جاتے ہیں اور انہیں کوئی گزند نہیں پہنچتا۔ ان جانوروں کے علاوہ تلوادی جنگل ریچھوں،جنگل سوروں،سانبھروں بھونکنے والے ہرنوں اور ہاتھیوں کے لیے شہرت رکھتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جو شکاری اس جنگل میں آکر زندہ سلامت گھر لوٹ گیا وہ بڑا خوش نصیب ہے۔
بیرا پجاری کو معلوم نہ تھا کہ میں اس جنگل کے چپے چپے سے واقف ہوں۔وہ مجھے ان بیوقوف اور اناڑی شکاریوں میں شمار کرتا تھا جو شیخی میں آن کر جنگل میں گھس جاتے ہیں اور کسی نہ کسی درندے کے ہاتھوں جان کھو بیٹھتے ہیں۔دراصل بیرا کو بندوق ہاتھ سے نکل جانے کا بڑا رنج تھا۔ پہلے تو اس نے منت سماجت سے مجھے رام کرنا چاہا لیکن میرے انکار اور ڈانٹ ڈپٹ سے ڈر گیا۔ اس کا خیال تھا کہ بڈھا شیر مار کر خوش ہو جاؤں گا مگر اس کی یہ توقع بھی پوری نہ ہوئی۔جھنجھلا کر اس نے مجھ سے انتقام لینے کی ٹھانی اور سوچا اس مردود کو تلوادی کا راستہ دکھایا جائے تاکہ اس بہانے اس کا قصہ تمام ہو جائے۔میں ہندو پجاریوں کی فطرت سے بخوبی آگاہ ہوں کیونکہ عمر عزیز کا نصف سے زیادہ حصہ انہی کے درمیان کاٹا ہے۔مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کی کسی بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔اس قوم کی فطرت میں دھوکا،فریب ،مکاری اور وعدہ خلاف کے عناصر کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں۔نازک سے نازک موقعوں پر ساتھ چھوڑ دینا اور دغا دینا ان کا شیوہ ہے۔ابتداء میں میرے ہندو ملازموں اور راہبر شکاریوں نے مجھے دھوکے دیئے اور مجھے موت کے منہ میں چھوڑ کر بھاگتے رہے۔چنانچہ ان کی فطرت سے آگاہ ہو کر میں نے ہندو ملزم رکھنے چھوڑ دیے اور آئندہ طے کیا کہ اگر ان کی معیت میں جنگل کے اندر جانا پڑے تو خود پیچھے رہوں گا اور انہیں آگے بڑھایا کروں گا۔(جاری ہے)