Veary interested story
ناول نام خوف
(کامیڈی +ہارر )
لکھاری جمیلہ نواب
قسط نمبر 1
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب رات کے وقت اتنی خاموشی ہوتی ہے کہ ہر کوئی مینڈکوں کے درمیان ہونے والی پرسنل باتیں سن سکتا ہے ۔۔۔
ٹر ٹر ٹر ٹر ٹر ۔۔۔۔
مگر آج یہ شور معمول سے زیادہ تھا شاید کوئی ایسی وجہ جو آج کی رات کو غیر معمولی بنا رہی تھی ۔۔۔
علی کی آنکھ اس شور سے کھل گئی تھی پیاس کی شدت سے برا حال تھا وہ پانی پینا چاہتا تھا مگر اس ٹھنڈ میں اٹھنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔
اس نے دوبارہ سونے میں ہی عافیت سمجھی ۔۔۔۔
وہ بچپن سے ہی ڈھیٹ تھا اس کی ماں اس سے سخت تنگ تھیں اپر سے اس کی دو شادیوں کی خاھش ۔۔۔
سب نے اسے بہت سمجھایا تھا مگر وہ با ضد رہا اپر سےایک ہی دن میں ۔۔۔
اس کے والد اتنی جائیداد چھوڑ کر مرے تھے کے کوئی بھی آسانی سے مان جاتا اس شرط کے لئے بھی ۔۔۔
علی کی چار بہنیں تھیں جو اسکی طرح ہی رج کے کام چور تھیں سارا دن face book lite پے پوسٹس لگانے کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا ان کو اکثر علی کی ماں کا دل کرتا تھا پانچو ں کا ڈھیر لگا کے آگ لگا دے ۔۔۔
وہ کبھی فارغ ہوتی تو یہ یاد کرنے کی کوشش کرتی کے وہ کیا کھاتی تھیں انکی ولادت کے دوران ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی اسلام آباد کے ایک نوا حی گاؤں تلہا ر میں رہتا تھا اس کی چار بہنیں تھیں
آمنہ
ثوبیہ
ملكہ
اور فاطمہ
آمنہ ماسٹرز کر چکی تھی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے ۔۔۔
ثوبیہ بی کام کے سیکنڈ ائیر میں تھی
ملكہ ف اس سی کر رہی تھی اور سب سے چھوٹی فاطمہ ابھی میٹرک میں سر کھپا رہی تھی
علی نے دو بار میٹرک کیا ۔۔۔۔
وہ پہلی بار میں ہی ہمت ہار چکا تھا لیکن اس کے مرحو م باپ کی وصیت تھی کے میری جائیدادصرف واحد صورت میں میرے اکلوتے بیٹے کو دی جائے اگر وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنی ڈگری وکیل کو پیش کرتا ہے ۔۔۔
علی مجبور تھا ۔۔۔بہت ۔۔۔۔یہ سفر بہت اذیت ناک تھا اس کے لئے مگر طے کرنا پڑا ۔۔۔
علی کے والد محمود صاحب اپنے وقت کے رئیس تھے بہت ٹھگ طبیعت کے مالک تھے ۔۔۔۔
مختلف لوگوں کے ساتھ ہیرا پھیری کر کر کے انھوں نے اتنا لوٹ رکھا تھا کے ان کی سات نسلیں بیٹھ کر کھا سکتی تھیں ۔۔مگر دنیا کو دیکھا نے کو انہو ں نے ملک کے مختلف حصوں میں جگہ جگہ کالی بھینسوں کے ڈیری فارم بنا رکھے تھے ۔۔۔جن میں سے ایک علی کے زیر نگرانی تھا ۔۔۔۔
علی لاکھ ڈھیٹ سہی مگر جانوروں کے معملے میں بہت خدا ترس تھا وہ اکثر رات جانورو ں کی دیکھ بھال کے لئے موجود چار نوکروں کے ساتھ گزارتا ۔۔۔
علی ایک خوبرو نو جوان تھا جسکی عمر 26 کے لگ بھگ تھی ۔۔۔
آج علی جلدی گھر جانا چاہتا تھا کیونکے موسم کے تیور ٹھیک نہیں تھے ۔۔۔
یہ اکتو بر کے آخر کے دن تھے جب سردی کسی نئی نویلی دلہن کی طرح اپنے ناز اٹھو ا تی ہے ۔۔
ایک بھینس کی طبیعت آج صبح کی خراب تھی وہ منہ بنا کے کھڑی تھی جیسے که رہی ہو ڈاکٹر نہ بلایا تو دودھ بھی نہیں دونگی ۔۔۔
علی بھینس کا موڈ بھانپ چکا تھا وہ مسلسل ڈاکٹر کا نمبر ملا رہا تھا مگر پاکستان زندآباد ۔۔۔
نیٹ ورک موسم کا بہانہ بنا کے کسی نک چڑ ی بیوی کی طرح میکے جا چکا تھا ۔۔۔
علی کو ڈاکٹر کا وائس میسج ملا جس میں موسم کی وجہ بتا کے معذرت اور صبح کا وعدہ تھا ۔۔۔
علی نے ہاتھ کا پنجہ بنا کے موبائل کی سکرین پے کیا جس سے تھوڑا غصہ کم ہوتا محسوس ہوا ۔۔۔
علی گھر جانے کی تیاری میں تھا کے ڈیر ے پے موجود نوکر عبدالله نے تیز بارش کی نوید سنا کے علی کے ہاتھ کے پنجے کا رخ اپنی طرف کر لیا ۔۔۔۔.
ڈیرے پر دو کمرے تھے جن میں سے ایک میں چاروں نوکر سوتے تھے اپنی اپنی باری کے مطابق کیونکہ دو کو جانوروں کے آس پاس کھلے آسمان کے نیچےسونا ہوتا تھا ۔۔
دوسرے کمرے میں جانوروں کی خوراک رکھی ہوتی تھی اور ایک چار پائی کی جگہ خالی تھی جہاں علی سو جاتا تھا علی نے عبدالله کو اپنے سونے کا انتظام کرنے کو کہا جو کر دیا گیا ۔۔
علی اپنے مستقبل کے بارے میں لیٹا سوچ رہا تھا جب عبدالله کمرے میں داخل ہوا اس کے ہاتھ میں مونگ پھلی کا شاپر تھا اور اس کے بولنے سے جوباس آئی تھی لگ رہا تھا وہ خود بھی کھا کے آیا ہے ۔۔
علی نے وہ شاپر لیا اور اسے جانے کا اشارہ کیا ۔۔۔
مونگ پھلی کھاتے کھاتے رات کے بارہ بج گئے علی نے آخری مونگ پھلی کھا کر خدا کا شکر ادا کیا کے جان چھوٹی اکثر بندہ مونگ پھلی چھیل چھیل کر تنگ آجاتا ہے ۔۔۔
پھر کب علی کی آنکھ لگی کچھ پتہ نہیں چلا ۔۔۔
تیز آندھی ۔۔۔۔کڑکتی بجلی ۔۔۔۔سیلابی بارش ۔۔۔
اپر سے سردی کا آوا یل حصہ ۔۔۔
رات ہر طرح سے خوفناک تھی
علی کے کمرے کا دروازہ تیزی سے کھلا اور پھر بند ہوگیا یہ سلسلہ رکا نہیں ۔۔۔۔
علی کی آنکھ کھل گئی ان سب آوازوں میں ایک اور آواز بھی شامل تھی جو ان آوازوں میں شامل ضرور تھی مگر ان کا حصہ نہیں تھی ۔۔۔
علی نے اٹھ کر دروازے میں موسم کا جائیزہ لیا۔۔۔
ساری بهینسیں پریشان کھڑی تھیں جبکے دونوں نوکر اندر جا چکے تھے ۔۔۔
بظاہر سب نارمل تھا مگر کچھ تھا جو معمولی نہیں تھا ۔۔۔
علی کافی دیر تک دیکھتا رہا مگر نہ تو آواز کی نوعیت
نہ ہی منظر کی عجوبیت سمجھ میں آئی ۔۔۔
علی نے خوف کی ایک یخ بستہ لہر اپنی ریڑ کی ہڈی میں سرائیت ہوتی محسوس کی ۔۔۔۔اور اپنے گرم بستر میں پناہ لی ۔۔۔۔
علی جو کہ اکثر رات کو آنکھ کھلنے پر اپنی مستقبل کی دو بیویو ں کے بارے میں سوچتا تھا آج اس کا ذہن کسی غیر مر ئی نقطے میں الجھا ہوا تھا ۔۔۔
ایسا کوئی حسین خیال نہیں آرہا تھا بلکے دل عجیب گھبراہٹ اور بے چینی کا شکار تھا ۔۔۔
علی کی آنکھ لگ گئی مگر نیند کی ديوی آج اس پر مہربان نہیں تھی ۔۔۔۔
وہ پسینے میں شرابور ۔۔۔پریشانی سے اٹھ کر بیٹھ گیا وہ اس یقین سے بے یقین ہونا چاہتا تھا جو وہ محسوس کر رہا تھا ۔۔۔
وہ بہت دیر تک سا کت بیٹھا رہا پھر ہمت جمع کر کے دروازے تک گیا ۔۔
بارش تھم چکی تھی برفیلی ہوا سائیں سائیں کر رہی تھی ۔۔۔
علی کی نظر جیسے ہی بھینسوں پر پڑی اسکو منظر کی عجوبیت کی وجہ سمجھ میں آگئی پھر کیا ہوا کچھ پتہ نہ چلا ۔۔۔
علی کی ماں عافیہ بیگم صبح صبح ناشتہ بنانے میں مصروف تھیں ساتھ اپنی چاروں بیٹیو ں کو کوس رہی تھیں کہ کیا فائدہ ان کا جب میں بوڑھی جان خود ہی سب کر رہی ہوں پھر خود کوبوڑھی کہنے پر انہو ں نے خود کو ان چاروں سے بھی زیادہ کوسا ۔۔۔
خاندانی رئیس ہونے کے باواجود ملازمو ں کی فوج نہیں تھی ۔۔۔
ایک مالی
ایک گارڈ
اور شبو ۔۔۔۔جو کے صفائی ستھرائی میں عافیہ بیگم کا ہاتھ بٹا دیتی تھی موڈ ہوتا تو سبزی بھی کاٹ دیتی تھی ورنہ سر کھجاتی رہتی جانے کس سے جوئیں ڈلوا لائی تھی ۔۔۔
عافیہ بیگم پراٹھے تلنے میں مصروف تھیں جب گارڈ نے بے ہوشی کی حالت میں علی کو گیٹ پر لانے کی اطلاع دی ۔۔۔۔
گارڈ اور عبدالله نے علی کو اٹھا کر کمرے میں لیٹا یا اور ساتھ ہے عافیہ بيگم کو انکی اس حالت کی وجہ سے لا علمی کا اظہا ر کیا ۔۔۔
عافیہ بيگم نے فوری طور پر اپنے فیملی ڈاکٹر ۔۔ .
ڈاکٹر احمد کو فون کیا اور جلدی آنے کو کہا ۔۔۔
احمد صاحب آج پھر اپنی بیوی کے ساتھ رات میں ہونے والے جھگڑے سے پریشان تھے مگر فلفور جانے پر ہی اكتفا کیا ۔۔۔۔
بظاھر علی بلکل ٹھیک تھا مگر تیز بخار سے تپ رہا تھا ۔۔۔
ڈاکٹر احمد نے چیک اپ کیا اور کسی شدید اور فوری صدمے کو بخار کی وجہ بتایا ۔
عافیہ بيگم کا رو رو کر برا حال تھا جبکے آمنہ ،ثوبیہ ,ملكہ اور فاطمہ دم سادھے صورت حال کو سمجھنے کی سعی میں تھیں ۔۔۔
ڈاکٹر احمد نے کچھ ضروری ادوايات لکهیں اور ڈرپ میں آرام ده انجکشن ڈال کر علی کو مکمل ریسٹ کروانے کو کہا ۔۔۔
ڈاکٹر احمد بھی علی کی دو بیویو ں کی خواہش سے واقف تھے ۔۔۔۔
گزشتہ رات کے جھگڑے کے اثرات تھے ان کا دل کیا علی کو زہر کا انجکشن لگا دے تا کہ slow posion سے بچ جائے ۔۔۔۔
ڈاکٹر احمد کے جانے کے بعد عافیہ بيگم علی کے پاس بیٹھ کر پڑھ پڑھ کے پھونکتی رہیں جبکہ آمنہ فیس بک پر علی کی پوسٹ لگانے چلی گئیں ۔۔
ثوبیہ اور ملكہ نے گروپ میں میسج چھوڑ دیا جبکہ فاطمہ نے موبائل میں واٹس اپ پر سٹیٹس ڈال دیا ۔۔۔
My only bro ali is not well
Feeling sad😢😢😢😢
ماں نے چاروں کو باری باری بھائی کے لئے سوپ اور یخنی بنانے کا کہا مگر چاروں پھو پھا ں کرتی نکل گئی ۔۔۔۔
علی پورا دن بیہوشی کی حالت میں لیٹا رہا ۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔