میں دیکھ بھی نہ سکا میرے گرد کیا گیا تھا poetry of the day
میں دیکھ بھی نہ سکا میرے گرد کیا گیا تھا
میں دیکھ بھی نہ سکا میرے گرد کیا گیا تھا
کہ جس مقام پہ میں تھا وہاں اجالا تھا
درست ہے کہ وہ جنگل کی آگ تھی لیکن
وہیں قریب ہی دریا بھی اک گزرتا تھا
تم آ گئے تو چمکنے لگی ہیں دیواریں
ابھی ابھی تو یہاں پر بڑا اندھیرا تھا
لبوں پہ خیر تبسم بکھر بکھر ہی گیا
یہ اور بات کہ ہنسنے کو دل ترستا تھا
سنا ہے لوگ بہت سے ملے تھے رستے میں
مری نظر سے تو بس ایک شخص گزرا تھا
الجھ پڑی تھی مقدر سے آرزو میری
دام فراق اسے روکنا بھی چاہا تھا
مہک رہا ہے چمن کی طرح وہ آئینہ
کہ جس میں تو نے کبھی اپنا روپ دیکھا تھا
گھٹا اٹھی ہے تو پھر یاد آ گیا انورؔ
عجیب شخص تھا اکثر اداس رہتا تھا
Thank you ayeshaaziz for making a transfer to me for an upvote of 1.04% on this post!
Half of your bid goes to @budgets which funds growth projects for Steem like our top 25 posts on Steem!
The other half helps holders of Steem power earn about 60% APR on a delegation to me!
For help, will you please visit https://jerrybanfield.com/contact/ because I check my discord server daily?
To learn more about Steem, will you please use http://steem.guide/ because this URL forwards to my most recently updated complete Steem tutorial?