Reflections #24 : "An Inspirational Person I Admire"،Pakistan

in STEEM FOR BETTERLIFEyesterday

السلام علیکم ،

ہر شخص کو زندگی میں اگے بڑھنے کے لیے کسی ائیڈیل شخصیت کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور وہ ائیڈیل شخصیت اس کے لیے کوئی بھی ہو سکتی ہے ۔وہ اس کے ماں ،باپ ،بہن، بھائیوں میں سے بھی کوئی ہو سکتا ہے اور اس کے جان پہچان والے لوگوں میں سے بھی کوئی ہو سکتا ہے۔
ایکسل لوگ اپنی اساتذہ کو یا اپنے دوستوں کو اپنا ائیڈیل بناتے ہیں مگر میری نظر میں میری باپ سے بڑھ کر کوئی شخص نہیں ۔میں اپنے باپ کے رہنما اصول ، پیار بھری شخصیت، ان کا محبت بھرا انداز اور ان کی سمجھانے کا طریقہ، ساری زندگی اپنے اوپر اپلائی کرتی رہتی ہوں مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں کمی رہ جاتی ہے ۔

میرے ابو کی ایک خاصیت یہ تھی کہ، وہ اپنی تمام اولاد سے یکساں محبت کرتے تھے۔ اور ہر بچے کو ایسے محسوس ہوتا جیسے وہ سب سے زیادہ محبت انہی سے کرتے ہیں۔ہم ماشاءاللہ گیارہ بہن بھائی ہیں ۔اور 11 بچوں کے درمیان ایک جیسی محبت کو وہ پروان چڑھانا اسان بات نہیں۔ ہر ایک بچے کو یہ احساس دلانا کہ وہ اپنے باپ کی نظر میں سب سے قیمتی اور سب سے لاڈلا ہے ۔یہ بہت مشکل ترین کام ہے ۔کیونکہ بحیثیت والدین ہم بھی اپنے بچوں میں کہیں نہ کہیں تفریق کر جاتے ہیں۔ مگر جہاں مجھے اپنے باپ کی شخصیت ذہن میں اتی ہے وہیں ان کا مساوی سلوک یاد اتا ہے۔ ساتھ ہی ان کا پیار بھرا مشفقانہ انداز بھی یاد رہتا ہے۔

جب میرے والد ہمیں تیار ہوا دیکھتے تو ہماری تیاری کو سر سے بیر تک غور سے دیکھتے ۔اور جہاں کچھ کمی رہ جاتی وہاں ہمیں مشورہ بھی دیتے کہ اگر ہم اپنی تیاری میں یہ بھی ایڈ کر لیں تو زیادہ مناسب رہے گا۔ یا پھر اگر ہماری ڈریسنگ میں کوئی برائی نظر اتی تو اس کو بھی پوائنٹ اؤٹ کرتے جس سے ہماری شخصیت میں مزید نکھار ایا ۔اور ہم سارے بہن بھائی پر اعتماد شخصیات کے روپ میں دنیا کے سامنے ائے۔

ویسے تو میرے ابو کا انتقال ہو چکا ہے اور میرے پاس ان کی کوئی تصویر موجود نہیں۔ کیونکہ بحیثیت مسلمان وہ زیادہ تصاویر نہیں کھنچوایا کرتے تھے۔مگر ان کو یاد کرنے کے لیے مجھے ان کی کوئی کاغذ پہ کھنچی ہوئی تصویر کی کوئ ضرورت نہیں ہے۔ میرے ذہن میں ان کی یاد ہمیشہ کے لیے محفوظ ہے اور ان کا پیار بھرا انداز کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔
میرے ابو کو بچوں سے بہت محبت تھی۔ حالانکہ ہم 11 بہن بھائی ہیں۔ اور ہر بچے کو اس کے بچپن میں ہمارے ابو نے کندھوں پہ بٹھا کے اور گود میں اٹھا کے سفر کیا۔ مگر اس کے باوجود جب ہم بڑے ہو گئے تو ہمارے محلے کے بچے بھی ہر وقت ہمارے گھر میں جمع رہتے تھے۔ اور ہمارے ابو ان سبھی دلچسپی کے لیے بھی سامان لایا کرتے تھے۔ جب ہم چھوٹے تھے اور ہمارے دوست گھر میں اکے ہمارے ساتھ کھیلتے تو وہ ساری انہی چیزوں سے انجوائے کرتے تھے جو کہ ہمارے ابو ہمارے لیے لے کر اتے۔ اور ہماری امی کو کہہ دیا کرتے تھے کہ، جب سارے بچے گھر میں ائیں تو وہ تمام کھیلنے کی اشیاء اور کھانے پینے کی چیزیں ان تمام بچوں میں بھی تقسیم کریں جیسے ہم بہن بھائیوں میں تقسیم کرتی ہیں۔

20241223_073533.jpg

میرے پاس میرے ابو کی کوئی تصویر نہیں، اس کا مجھے کوئی غم نہیں ۔یہ جو تصویر میں اپ کے سامنے شیئر کر رہی ہوں وہ میرے ابو کی جوانی کی تصویر ہے۔ اور اس میں میری بہن کو انہوں نے گود میں لیا ہوا ہے۔ یہ اج سے تقریبا 60 سال پہلے کی تصویر ہے ۔اور فوٹوگراف کو کیمرے میں کیپچر کر کے واٹس ایپ پر ڈی پی کے طور پہ میری امی نے لگایا ہوا ہے۔ میں چونکہ اس میں سے تصویر کو کیپچر نہیں کر سکتی تھی۔ لہذا اس کو مختصر کر کے جتنا نکال سکی وہ میں نے اس میں سے نکال کے اپ کے ساتھ شیئر کیا۔

مجھے یاد ہے کہ ہم ایک دفعہ اپنے رشتہ داروں کے گھر بہت دور کا سفر کر کے گئے ۔واپسی پہ میں چلتے چلتے بہت تھک گئی تھی، اور ہمیں کوئی سواری نہیں مل رہی تھی۔ میں نے اپنے ابو سے کہا کہ ابو میں بہت تھک گئی ہوں، تھوڑی دیر رک جائیں تو اس پر میرے ابو نے جو کہ پہلے ہی میری چھوٹی بہن کو گود میں لے کے چل رہے تھے۔ مجھے بھی اپنی گود میں اٹھا لیا ۔حالانکہ اس وقت میری عمر کم از کم بھی اٹھ یا نو سال ہوگی مگر جو نکہ انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ میں واقعی تھک گئی ہوں تو انہوں نے مجھے اپنی گود میں لینا مناسب سمجھا۔ نہ کہ رات کے وقت میں سڑک پہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی فیملی کو روک کے بیٹھیں۔ میں اپ کو یہ بات اس لیے بتا رہی ہوں کہ ان کی محبت ان کی تھکن پہ حاوی ا جاتی تھی۔
اس کے علاوہ روزانہ جب بھی میرے ابو افس سے واپس گھر اتے تو بس میں سفر کر کے بہت زیادہ تھک چکے ہوتے۔ کیونکہ میرے بڑے بھائی جو کہ قران پاک حفظ کرنے کی غرض سے مدرسے میں پڑھتے تھے ان کو ساتھ لے کے ایا کرتے تھے۔ اور اکثر میرے بڑے بھائی جن کی عمر اس وقت 10 سے 11 سال ہو چکی تھی ان کو رستے میں نیند ا جاتی اور میرے ابو ان کو گود میں اٹھا لیا کرتے ۔بس میں کھڑے ہو کے سفر کرنا ساتھ میں ایک بچے کو بھی گود میں اٹھا لینا ہمت کی بات ہے۔ مگر جب وہ گھر پہنچتے تو بھائی اٹھ چکے ہوتے اور جیسے ہی ابو ان کو زمین پہ کھڑا کرتے ہم سارے بہن بھائی اپنے ابو کے ارد گرد جمع ہو جاتے۔ اور وہ ہمیں سب کو باری باری اپنے اوپر چڑھا لیتے۔ اور دروازے سے لے کر کمرے تک کا سفر ہم اپنے ابو کی گود میں طے کیا کرتے ۔حالانکہ ہماری امی کو اس بات پہ بہت ٹینشن ہوتی کہ ہمارے ابو تھکے ہوئے ہوں گے۔ مگر ابو مسکرا کے یہ بات کہا کرتے تھے کہ جب میرے بچے میری گود میں اتے ہیں تو میری ساری تھکن ختم ہو جاتی ہے۔

یہ تو ان کی ساتھ محبت کی چھوٹی چھوٹی مثالیں ہیں۔ مگر جب ان کی محبت کا سلوک محلے والوں کے ساتھ دیکھیں، تو وہ بھی بہت بہت بڑا محسوس ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب ہم اسکول جاتے تو اور ابو نے بڑی گاڑی خرید لی تھی۔ اور ہمیں اس گاڑی میں بٹھا کے اسکول لے جایا کرتے۔ راستے میں ان کو محلے کے جتنے بچے یا ہمارے سکول کے جو بھی بچے نظر اتے انہیں ہمارے ساتھ گاڑی میں بٹھاتے چلے جاتے ۔اور جب ہم اسکول پہنچتے تو ہماری گاڑی میں سے ،15 20 بچے اسکول کے لیے نکل کے جاتے ۔جس سے ان کی محبت ظاہر ہوتی تھی۔ کہ گاڑی میں جب جگہ ہے تو بچوں کو اسانی سے بٹھا کے لے جایا جا سکتا ہے۔ نہ کہ بچوں کو پیدل جانے دیا جائے ۔حالانکہ اکثر بچے ایسے ہوتے تھے جن کو ہم پہچانتے بھی نہیں تھے ۔مگر ہم اپنے ابو کی محبت کا کیا کریں کہ، وہ ہر بچے سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔

شاید ان کی محبت کا ہی یہ سلوک تھا کہ، جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے جنازے میں اتنے لوگ تھے کہ، ہمارے گھر کی بڑی سڑک جو کہ مین روڈ سے بھی زیادہ بڑی ہے چوڑی ہے ۔وہ گاڑیوں سے اور لوگوں سے فل بھر گئی تھی ۔جبکہ جنازہ لے جانے کے لیے بڑی بسیں لے کر ائے تھے۔ اور وہ بسیں بھی فل بھر گئی تھیں ہمارے گھر میں جو کہ اچھا خاصا بڑا ہے اتنی عورتیں جمع تھیں کہ پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں بن رہی تھی ۔ہماری امی نے سارے بیڈ اور چارپائیاں اٹھا کے دیوار کے ساتھ کھڑی کروا دی تھی ۔تاکہ جب لوگ گھر میں ائیں تو کم از کم کھڑے ہونے کی ہی جگہ بن جائے ۔اور فرش پہ قالین بچھا دیے گئے تھے ۔تاکہ اگر کسی کو بیٹھنا ہے تو اس پہ بیٹھ جائے ۔مگر ان سب کے باوجود فروری کے مہینے میں میرے ابو کا انتقال ہوا اور گھر میں لوگوں کے رش کی وجہ سے اتنی گرمی تھی کہ پنکھے چلانے پڑے ۔ابھی تو ہم بہت سارے لوگوں کو بتا ہی نہیں پائے تھے کہ ہمارے ابو کا انتقال ہو چکا ہے ۔ابو کے انتقال کے چھ مہینے بعد تک لوگوں کا رش ہمارے گھر میں لگا رہا۔ اور ان کی محبت میں لوگ کھنچے چلے اتے۔
بحیثیت باب وہ ایک بہترین شخص تھے۔ مگر بحیثیت شوہر اور بھائی وہ ایک بہترین ادمی تھے۔ میری امی کو کتنے دن تک یقین ہی نہیں ایا کہ میرے ابو کا انتقال ہو چکا ہے ۔وہ ہر جگہ ہمارے ابو کو ہی تلاش کیا کرتی تھیں۔ کیونکہ ہمارے ابو اور امی کی محبت مثالی محبت تھی۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ، مرنے کے بعد قیامت میں جب انسان کا حشر ہو جائے گا اور اس کو جنت میں بھیج دیا جائے گا تو ،وہاں پر مردوں کو حوریں نصیب ہوں گی۔ جبکہ عورتوں کو غلمان عطا کیے جائیں گے۔ اس پر میرے ابو کی یہی خواہش ہوتی کہ وہ اپنے رب سے دعا کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد جنت میں بھی ان کو ہماری امی ہی حور کی شکل میں دی جائے۔ کیونکہ ہمارے ابو کو ہماری امی سے بے انتہا محبت تھی ۔اور ان کو جنت میں بھی ہماری امی کا ساتھ ہی پسند انا تھا۔
انسان کی فطرت میں ہوتا ہے کہ جو چیز اس کو اپنے بچپن میں نہیں ملتی وہ وہ چیزیں اور وہ شفقتیں اپنی اولاد پر نجھاور کر دیتا ہے ۔کیونکہ ہمارے باپ کو بچپن میں ہی اپنے ماں باپ کا سائے سے محروم ہونا پڑا۔ اس لیے دنیا والوں کی ٹھوکروں میں پل کے بڑے ہونے والے شخص کی محبت کا اندازہ اپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ۔ میرے ابو کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ اپنے منہ کا نوالہ بھی ہمارے منہ میں ڈال دیں۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کے ہمیں چیک کرتے کہ کسی بچے کے جسم پہ سے لحاف یا کمبل اتر تو نہیں گیا ؟کسی بچے کو سردی تو نہیں لگ رہی؟ یا کوئی بچہ اگر سوتے ہوئے کھانستا تھا تو سوتے ہوئے بچے کو دوا دینے کی ذمہ داری ہمارے ابو کی ہوتی تھی۔
زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا کہ جب مجھے اپنے ابو کی کوئی بات یا نصیحت یاد نہ ائے یا میں ان کی نصیحت پر عمل کرنے سے ڈروں۔

JvFFVmatwWHRfvmtd53nmEJ94xpKydwmbSC5H5svBACH81Udb5TNLZmQceiR2bmGBM1kAuQt24QvmF9vV7VqP1cfLa4vd4CtafdXTVBXfM6BvmVuKe1Mso1Z3BGuXnsTgCYZ9fHzzS.jpeg

میں اپنے ابو کی ائیڈیل پرسنلٹی کے بارے میں جتنا بھی لکھوں کم ہے۔ اب میں اپنی پوسٹ کا اختتام ان الفاظ سے کرتی ہوں کہ، اللہ تعالی تمام بچوں کے سروں پہ ان کے والدین کو سلامت رکھے ۔کیونکہ والدین ایسی نعمت ہے جن کا کوئی نعم البدل نہیں۔

@sadaf
@shano
@waterjoye
میں اپ سب کو اس مقابلے میں شرکت کی دعوت دیتی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ اپ اپنے بہترین خیالات سے ہمیں مستفید کریں گے۔

Sort:  

Thank you for publishing your post in Steem For Betterlife Community. We encourage you to keep posting quality content and support each other in the community.

Thank you for your entry friend! Indeed father is our hero, and yours feels like a genuine, and special person. It was emotional to read this, and I am sorry that he is not with you today. Anyway, I wish him the best according your religion!


DescriptionInformation
Plagiarism Free
#steemexclusive
Bot Free
Support burnsteem25
Support Community or Charity-
Status Club
AI Article✅ Original (Human text!)

Appeal to community members:

  • Let's increase Steem Power (SP) to support each other by joining at least #club5050
  • Maintain the authenticity of your content to get greater support
  • Only use original photos or copyright-free images by linking the image source
 26 minutes ago 

بہت شکریہ اپ کی خوبصورت الفاظ میں تعریف کرنے کا اور میری پوسٹ پڑھنے کا۔

صبح بخیر
میں ابھی آپ کی پوسٹ سے گزرا۔
آپ کے والد آپ کے ہیرو رہے ہوں گے۔
مجھے آپ کا مواد پسند ہے۔ steeming رکھیں.

Coin Marketplace

STEEM 0.24
TRX 0.26
JST 0.041
BTC 98102.63
ETH 3490.00
USDT 1.00
SBD 3.42