Do you believe that kindness will bring you good luck? Contest Reward 25 Steem and 25 UVF, Pakistan
السلام علیکم,
انسان کے مزاج کی نرمی اس سے وہ کام بھی کروا لیتی ہے جو کہ عمومی طور پر ناممکن لگ رہا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات ہمارے ایسے کام رکے ہوئے ہوتے ہیں جو کہ کسی بھی طرح مکمل ہوتے نظر نہیں اتے اور اگر وہاں پر ہم اپنے مزاج میں سختی لا کے کام کرنا چاہیں تو وہ معاملہ مزید بگڑ جاتا ہے۔ ایسے موقعوں پر اگر انسان تھوڑا دھیمے مزاج کے ساتھ چلے اور نرمی اختیار کرے تو معاملہ اسانی سے نمٹ جاتا ہے۔
خاص طور سے بچوں کے ساتھ معاملات میں نرمی برتی جائے تو وہ بہت اسانی سے بات سمجھ جاتے ہیں۔ کیونکہ بچے ہمیشہ پیار کے عادی ہوتے ہیں۔ جب ان کے اوپر سختی کی جائے تو وہ یا تو ڈر کے ذہن جاتے ہیں یا پھر باغی ہو کے دور ہو جاتے ہیں۔
ویسے بھی عمومی طور پر انسان دوسروں کے ساتھ تعلقات بنانے میں نرمی سے بات کو اچھے طریقے سے ہینڈل کر سکتا ہے۔ بعض لوگوں کے مزاج میں غصہ زیادہ ہوتا ہے اور وہ ذرا سی بات پر بھی بھر جاتے ہیں۔ اور کوئی بھی بات ان کو اگر مزاج کے خلاف ناگوار محسوس ہو تو وہ اپنے غصے کا اظہار کرنے سے نہیں جھجکتے ۔تو ایسے لوگوں کے ساتھ دوسرے لوگ اسانی سے نہیں گھل مل پاتے۔ اور ان کے اپنے قریبی بھی اپنے دل کی بات ان سے شیئر نہیں کر سکتے۔ اس کی وجہ سے وہ لوگ اکیلے رہ جاتے ہیں اور سب لوگ ان کے غصے سے ڈر کر اور گھبرا کر ان سے دور ہو جاتے ہیں۔
میرا اپنا مزاج بھی غصیلہ ہے۔ مگر جیسے جیسے میری عمر بڑھ رہی ہے ۔مجھے اپنے مزاج میں سختی بری لگنے لگی ہے۔اور اب میں اپنے اپ کو نرم مزاجی کی طرف لا رہی ہوں۔ جس سے بہت سارے ایسے معاملات جو کہ مجھے پہلے حل کرنا مشکل لگتے تھے، اسانی سے حل ہو جاتے ہیں۔ اور جس کی وجہ سے گھر میں سکون اور خوشگوار ماحول بن جاتا ہے واقعی خوش مزاجی انسان کی اچھی قسمت میں بہت کردار اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ایک کہاوت ہے
جب گھی سیدھی انگلیوں سے نہ نکلے تو انگلیاں ڈیڑھی کرنی پڑتی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان ہر جگہ نرمی سے کام نہیں لے سکتا بعض اوقات معاملات کو سلجھانے کے لیے انسان کو اپنے مزاج میں۔ سختی لانی پڑتی ہے ۔اور معاملے کو ہینڈل کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ زندگی کے ہر معاملے میں نہیں چلتا کیونکہ اگر انسان ہر وقت نرمی پہ رہے تو بھی نقصان دہ ہے۔ اور اگر ہر وقت سختی کرے تو بھی نقصان دہ ہے۔
اسی لیے ہمیں اپنی زندگی میں ہر میدان میں میانہ روی سے کام لینا چاہیے۔ زیادتی ہر چیز کی بری ہوتی ہے۔ چاہے وہ غصے کی زیادتی ہو چاہے وہ نرمی کی زیادتی ہو۔ انسان کو اعتدال میں رہ کے ہر کام کرنا چاہیے ۔جس جگہ نرمی سے بات ہو سکتی ہے اور معاملات ہینڈل ہو سکتے ہیں، تو وہاں پر سختی کے بجائے نرمی کا ہی معاملہ اختیار کریں۔ جبکہ بعض اوقات کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو نرمی سے بات سمجھ نہیں اتی۔ تو ان کے ساتھ سختی کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جیسے اسکول میں بچے جب پیار سے ٹیچر کی بات نہ سنیں تو ٹیچر کو سختی کرنی پڑتی ہے۔ اس سے بچوں کے اندر ٹیچر کا روگ پیدا ہوتا ہے اور ان کی بات مان لیتے ہیں اور سکون سے بیٹھ جاتے ہیں۔
میرے خیال میں انسان کے مزاج کی نرمی اور سختی ہر طرح کے معاملات میں اس کے کاموں پر اثر انداز ہوتی ہے۔
میں اس مقابلے میں کچھ ساتھیوں کو انوائٹ کروں گی۔