An English writer
An English writer writes that I was once fishing in a lake when I ran out of bait. While I was thinking what to do, I saw a snake swimming near me with a frog in its mouth. I knew that a frog would be good food for big fish, and that a snake would not bite me with a frog in its mouth, so I grabbed the snake by the neck and took the frog out of its mouth and put it in my basket.
Now the problem became how to release the snake, it would turn around and bite me. After a little thought I picked up my whiskey bottle and poured the coffee into his mouth, then tossed him away and got down to fishing myself.
As I was walking back after catching fish, I felt something in my foot. When I looked down, the same snake was looking at me with two frogs in its mouth with questioning and optimistic eyes.
ایک انگریز مصنف لکھتا ہے کہ میں ایک بار جھیل میں مچھلیاں پکڑ رہا تھا کہ میرے پاس چارہ ختم ہو گیا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کروں، میں نے اپنے قریب ایک سانپ کو دیکھا جس کے منہ میں مینڈک تھا۔ میں جانتا تھا کہ مینڈک بڑی مچھلیوں کی اچھی خوراک ہو گا اور سانپ مینڈک کو منہ میں رکھ کر مجھے نہیں کاٹے گا، اس لیے میں نے سانپ کو گردن سے پکڑ کر مینڈک کو اس کے منہ سے نکال کر اپنی ٹوکری میں ڈال دیا۔ .
اب مسئلہ یہ بن گیا کہ سانپ کو کیسے چھوڑا جائے، وہ پلٹ کر مجھے کاٹ لے گا۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد میں نے اپنی وہسکی کی بوتل اٹھائی اور کافی اس کے منہ میں ڈالی، پھر اسے پھینک دیا اور خود مچھلی پکڑنے کے لیے نیچے اتر گیا۔
جب میں مچھلیاں پکڑ کر واپس چل رہا تھا تو مجھے اپنے پاؤں میں کچھ محسوس ہوا۔ میں نے نیچے دیکھا تو وہی سانپ منہ میں دو مینڈک لیے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔